فتنوں کا دور اور مسلمان


جولائی 1995ء
شیخ صالح العثیمین

فتنوں کا دور اور 

مسلمان

آج کے پرفتن دور میں اپنی حفاظت کے لیے ہمیں اللہ سے  دعا گو ہو نا چاہیےاور اس اللہ کی پناہ میں آنا چا ہیےجو ان تمام فتنوں سے بالا تر ہے جو دین کے لیے مہلک ہیں جو عقل کو شل کر دیتے اور جسم و جا ن کو تباہ کر دیتے ہیں اور ہر خیر کے دشمن ہیں ایسے سب فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگنی چا ہئے کیوں کہ فتنوں  سے کسی خیر کی توقع  نہیں کی جا سکتی ۔نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا معمول بھی یہ تھا کہ آپ فتنوں سے پناہ مانگا کرتے اور لوگوں کو ان سے خبر دار کرتے تھے۔
یہی وجہ  ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے الصحیح میں باب الفتن کا آغاز اس آیت کریمہ سے کیا ہے کہ "اس فتنہ سے ڈر جا ؤ جو صرف ظالموں پر نہیں آئےگا ۔" 
اسی  طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  فتن سے بچانے کا رویہ اپناتے کیونکہ فتنے جس وقت وقوع پذیر ہو تے ہیں تو صرف ظا لموں پر نہیں بلکہ دوسروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں ۔ان کی پکڑ سے کو ئی محفوظ نہیں رہتا ۔چنانچہ ہمیں چا ہیے کہ ہم بھی ان سے محفوظ رہنے کی تدبیر کریں ۔ہر ایسی چیز سے پرہیز کریں جو ہمیں فتنہ سے قریب  کر دے ۔حدیث میں آتا ہے کہ قرب قیامت فتنوں کی کثرت ہوجا ئے گی۔
"زمانہ قیامت قریب آ جا ئے گا ۔عمل کی روایت سست پڑ جا ئے گی  ۔اور ان میں بخیلی پھوٹ پڑے گی یا کثرت پکڑ جا ئے گی۔یا آپ نے کہا کہ فتنے ظاہر ہو جا ئیں گے"
وجہ یہ ہے کہ فتنوں کے واقع ہو نے سے فساد میں کثرت ہو جا تی ہے اور فساد میں شدت قیامت کے واقع ہو نے کی اہم وجہ ہے ۔نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی رحمت کا یہ فیض تھا کہ آپ نے ہمیں فتنوں سے بچا ؤ کی تلقین کی اور اپنی دعاؤں میں اس کو شامل کیا ۔اللہ تعا لیٰ نے بھی یہی بات سکھلا ئی :
﴿وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَّا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنكُمْ خَاصَّةً﴾
اس آیت کی تفسیر میں ابن کثیر کہتے ہیں کہ "یہ آیت باوجود اس کے کہ اس کے اولین مخاطب صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  تھے عام مسلمانوں کو بھی شامل ہے کیونکہ اس آیت کے تحت نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  لوگوں کو فتنہ سے بچا ؤ کی تلقین کیا کرتے تھے"علامہ آلوسی نے اپنی تفسیر میں اس آیت کے ضمن میں فتنہ کی وضا حت ایسے کی ہے ۔
"فتنوں میں بہت سی چیزیں شامل ہیں جن میں امر بالمعروف و نھی عن المنکر میں مجرمانہ غفلت برتنا اور فرقہ بندی و اختلا فات میں پڑجا نا اسی طرح اسی طرح بدعت کے نمودارہو نے کے وقت اس کی تر دید نہ کرنا بھی اس میں شامل ہے"مزید فر ما یا کہ" حالات کی مناسبت سے فتنے کی ہر قسم اس میں شامل ہے"یعنی اگر ایسے حالات ہوں کہ مسلمانوں میں اختلا فات و تعصب اور گروہ بندیوں کا دور دورہ ہو تو اس وقت ہمیں ایک دوسرے کو اس آیت کے ذریعے نصیحت کرنی چا ہیے کہ "لوگو !اختلا فات اور فرقہ بندیوں کو بھول جا ؤ کیونکہ اس کا وبال اور انجا م کا ر  صرف ظا لموں کے حصے میں نہیں آئے گا بلکہ سب کو اپنے گھیرےمیں لے لے گا ۔"
اس تمہید کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ ہم یہ صلا حیت رکھتے ہیں کہ اہل علم کے ذریعے عوام میں فتنوں سے بچنے کا شعور پیدا کریں اور خود بھی ان اصولوں سے آگا ہ ہوں جو ہمیں آزمائش کا مقابلہ کرنے میں مدد دیں اس لیے کہ فتنوں کی کثرت میں عام شخص بھی ان سے محفوظ رہنے کی تدبیر سوچتا اور دوسروں تک پہنچاتا ہے۔ بالخصوص نو جوان اسلامی ذہن رکھنے والا طبقہ اس میں کا فی متحرک ہو تا ہے چنانچہ میں بھی لا زمی سمجھتا ہوں کہ اپنی قدرو وسعت کے مطا بق سلف اور اہل علم حضرات سے ان مسائل کا حل آپ کے سامنے رکھوں اور دین میں اس بارے میں ہمیں جو راہنما ئی دستیاب ہے اس سے آپ کو آگا ہ کروں ۔
کیونکہ جب فتنوں کی ظاہری صورت پر نظر نہ رکھی جا ئے اور مستقبل میں ان کے نتا ئج پرنہ سوچا جا ئے تو بہت ممکن ہے کہ ہماری حالت آج سے بھی بدترہو جا ئے ۔بالخصوص  اس حا لت میں جبکہ اہل علم بھی اس سلسلے میں دینی بصیرت اور ہدایت سے قدرے غافل ہوں اور اللہ اور رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی رضا  کے مطا بق نت نئے پیدا ہو نے والے حالات اور نمودارہو نے والے فتنوں کا مقابلہ نہ کرسکتے ہوں ۔
چنانچہ ضروری ہے کہ ان قواعد کو سیکھ  کر ان پر عمل پیرا ہوا جا ئے ۔ہمارا ایمان ہے کہ دینی رشد و ہدایت پر عمل پیرا ہو نے سے جہاں غلط شے میں مبتلا ہو نے سے ہم بچ جا ئیں گے۔ وہاں اس کا نتیجہ بھلا ئیوں کی کثرت میں نکلے گا جس پر ان شاء اللہ ہمیں ندا مت نہ ہو گی۔

الغرض: کسی معاملے میں اصول و ضوبط کی معرفت رکھنا فوائد سے خالی نہیں ہو سکتا ۔اب ہم ان قواعد سے ابتدا کرتے ہیں جنہیں ادوار گذشتہ میں علماء اہل السنۃ والجماعۃ نے قرآن و حدیث سے وضع کیا اور خود ان پر عمل کر کے دکھا یا ۔

اس سے پہلے ضروری ہے کہ ہمیں معلوم ہو قاعدہ اور ضابطہ کسے کہتے ہیں ؟کسی مسئلہ میں ضابطہ اسے کہا جا تا ہے۔۔۔جس کے ذریعہ ہم ایک قسم کے مسائل میں حکم لگا نے کی معرفت حاصل کرسکیں اور ایک ہی قبیل کے مسائل کو اس ضابطے پر پیش کر کے حل کر سکیں ۔۔۔جبکہ قاعد ہ وہ امر کلی ہے جس کی طرف مختلف قسم کے مسائل کو لوٹا کر فیصلہ کیا جا سکے۔

نبی اکرم صلوات اللہ و سلامہ علیہ کا ارشاد گرا می ہے۔

"بلا شبہ تم میں جو شخص میرےبعد زند رہے گا وہ عنقریب بہت زیادہ اختلافات دیکھے گا ان اختلا فات کے دور میں تمہیں چا ہیے کہ میری سنت اور میرے بعد آنے والے خلفاء راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین  (جو ہدا یت یافتہ تھے)کی سنت اور طریقے پر عمل پیرا رہو ۔اس کو مضبوطی سے پکڑ ے رکھو۔"

نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے بعد ایسے ہی ہوا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین   نے بہت زیادہ اختلا فات اور جھگڑے دیکھے اور صحا بہ کرام میں وہی زیادہ کا میاب رہے جنہوں نے ان قواعد کو ملحوظ رکھا جن کی نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے تعلیم دی تھی اور خلفاء راشدین  رضوان اللہ عنھم اجمعین  کی سنت تھی ۔

ان قواعد پر عمل پیرا ہو نے میں جن فوائد کی توقع ہے وہ حسب ذیل ہیں ۔

پہلا فائدہ جس کے حاصل ہو نے کا امکان ہے وہ یہ کہ مسلمان کا نظر یہ ایسے غلط تصورات سے محفوظ رہ سکتا ہے جس سے شرع نے منع کیا ہے دوسرے الفاظ میں انسان  غلط نظریات میں مبتلا ہونے سے بچ سکتا ہے اور واضح رہے کہ یہ تصورات و نظریات انسان کے رویوں پر بہت شدت سے اثر انداز ہو تے ہیں اور اس کے معاشرتی اجتماعی اور خاندانی حالات پر فیصلہ کن انداز میں اثرا ت واقع ہو تے ہیں ۔چنانچہ  ان قواعد پر عمل پیرا ہو نے سے انسان کی ذہن سازی صحیح اسلامی نظریات پر استوار ہو تی ہے۔

دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ مسلمان غلطی سے محفوظ رہے گا اور صراط مستقیم  سے نہ بھٹکے گا کیونکہ اگر وہ ہدایت الٰہی سے ان فتنوں کے بارے میں فائدہ نہیں اٹھا تا تو ان گمراہیوں میں اس کے مبتلا ہو نے کا خدشہ ہے اور یہ ممکن نہیں کہ وہ ان سے متا ثر نہ ہو جس کے نتیجے میں قدم بقدم وہ راہ ہدایت سے دور ہو سکتاہے۔

ان قواعد کی اس قدر اہمیت کیوں ہے؟ اس لیے کہ علماء اہل سنت والجماعت یعنی ہمارے اسلاف نے دلائل کی روشنی میں اپنے وسیع دینی فہم و تجربے کی بنا پر ان کو اخذ کیا ہے اور ہمارا یہ حسن ظن ہے کہ جو شخص دلیل اور علماء اسلاف کے نقش قدم پر چلے گا ۔امید ہے کہ وہ اپنے طرز عمل پر ندامت سے بچا رہے گا ۔

ان قواعد وضوابط کی پابندی کا تیسرا فائدہ یہ ہے کہ اس سے مسلمان گناہ میں واقع ہو نے سے بچ جا تے ہیں کیونکہ ان قواعد کا لحاظ کئے بغیراگر کو ئی شخص اپنی صوابدید کے مطابق رستہ بنا نے کی کو شش کرے گا وہ غلطی اور گناہ میں واقع ہو نے سے محفوظ رہ سکتا کیونکہ اپنی صوابدید کے مطا بق اختیار کئے ہو ئے قول و فعل میں انجا م کار علم نہیں ہو سکتا ۔لیکن جب آپ قواعد وضوابط کی  روشنی میں دلیل کا رستہ اختیا ر کریں گے تو غلطی سے محفوظ رہیں گے۔اس کے بعد بھی اگر خطا کا امکا ن ہے تو اللہ سے امید رکھنا چا ہیے کہ ہمیں اجر سے محروم نہ  کرے گا ۔

قبل اس کے کہ ان قواعد کا ذکر شروع کیا جا ئے یہ وضا حت ضروری ہے کہ ان اصولوں اور قواعد کا ماخذ کیا ہے ۔کہاں سے ہم نے ان کو حاصل کیا ہے۔چنانچہ واضح رہے کہ ان ماخذ اور دلیل دو چیزوں میں سے کو ئی ایک ضرور ہے۔یاتواولہ شرعیہ یعنی قرآن و حدیث سے یہ ضابطے واضح طورپر ثابت ہیں اور علماء اہل سنت والجماعت نے ان کو شرعی ماخذ سے حاصل کیا ہے۔دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ ان ماخذ وہ عملی سنت (جس کی مسلمانوں نے رعا یت کی ہے)ہو جس پر نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہ کرام  رضوان اللہ عنھم اجمعین   نے عمل کیا ہے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین   تابعین اور آئمہ اسلام اہل سنت والجماعت کے امام اور سلف کے لیے فتنوں کے نمودارہونے کے وقت عملی سیرت ہوا کرتی تھی جس پروہ عمل پیرا ہوا کرتے تھے۔اور اس بارہ میں ان کا رویہ امت کے لیے چرا غ را ہ ہے۔اور مختلف حالات میں مختلف آئمہ نے ان اصولوں پر عمل کیا ۔

لہٰذا ہمیں یقین ہے کہ اس وقت تک ہماری نگا ہ دھوکہ نہ کھا ئے گی اور عقل فریب کا شکار نہ ہو گی جب تک ہم ان کے رستے پر عمل پیرا رہیں اور ان کی عملی سیرت کو حرزجان بنا ئیں گے۔ اور یہ اللہ بزرگ و برتر کی وسیع اور جلیل رحمت ہے کہ اس نے ہمیں کسی ہدایت کے بغیر  نہیں چھوڑا ۔علماء ۔۔۔اہل السنت والجماعت ۔۔۔۔ہی وہ شخصیتیں ہیں جن کی طرف اس معا ملے میں رجوع کیا جا سکتا ان کی را ئے کا عتبار کیا جاسکتا اور ان کے فہم اور اقوال کو مشعل راہ بنا یا جا سکتا ہے کیونکہ وہی شریعت کا علم حق رکھتے ہیں اور اس کے کلی و بنیا دی قواعد اور اصولوں کی ایسی معرفت رکھتے ہیں ۔جس سے غلطی اور تفرقہ کا امکا ن باقی نہیں رہتا ۔

جو شخص کسی صاحب بصیرت ذی علم کے پیچھے چلتا ہے اور دلا ئل شرعیہ کی روشنی میں قدم اٹھاتا ہے اس کے لیے خوش بختی ہے اور اس اتباع میں اس کے لیے ہدایت کی بشارت ہے۔۔اور بعد میں ندامت سے محفوظ رہنے کی واثق امید ہے۔

فتنوں کے زمانے میں شرعی قواعد و ضوابط :۔

ایسے دور میں کہ جب فتنے چہارسو پھیل جا ئیں اور حالات ہر دم غیر یقینی ہوں تو ہمیں نرمی تدبر اور تحمل کے دامن میں پناہ لینی چا ہیے ۔

یہ قاعدہ بڑا اہم ہے یعنی تین امور کی طرف توجہ دی جا ئے۔

پہلی الرفق ۔۔۔یعنی نرم رویہ !کیونکہ صحیح حدیث میں نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے مروی ہے۔ 

"نہیں ہو تی نرمی کسی چیز میں مگر وہ نرمی اس کو خوب تر کر دیتی ہے اور کسی چیز میں سے اگر نرمی ختم کر دی جا ئے تو اس کی ہیئت بگڑ جا تی ہے"

اہل علم کہتے ہیں کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کیا یہ قول ما كان في شيئ الا زانهہے اور اور نفی کے سیاق میں آیا ہے اصول کا تقاضا یہ ہے کہ یہ الفاظ تمام قسم کے امور کو شامل ہو ۔ یعنی نرمی ہر چیزمیں پسندیدہ ہے جیسا کہ حدیث میں بھی ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  فر ما تے ہیں "اللہ تعا لیٰ ہر معاملے میں نرمی کو پسند کرتے ہیں ۔" نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ بات حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے فر ما ئی اس حدیث کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  "باب الرفق فی الامرکله " کے تحت لائے ہیں ۔

چنانچہ ہر کام میں نرمی کا رویہ ہو نا چا ہیے اور غیض و غضب کے بالمقابل نرمی والفت کو اپنانا ضروری ہے کیونکہ نرم رویہ کا خو گر کبھی نادم نہیں ہو تا ۔نرمی ہر چیزمیں حسن پیدا کرتی ہے۔

افکار میں طرز عمل میں اور ہراس چیز میں جو آپ کو پیش آسکتی ہے ۔

چنانچہ کسی فتنے کے پیش آنے پر نرم روی سے اس کا جائزہ لیں اور جلدی کرتے ہو ئے فوری فیصلہ نہ دے دیں ۔ہر کام میں خوبصورتی کو نظر انداز نہ کریں ۔یہ بھی یاد رکھیں کہ خوبصورتی اور حسن نرم رویہ سے پیدا ہوتا ہے۔

دوسری چیز ہے "التانی"جس کا مطلب ہے کسی کام کو آہستہ آہستہ انجا م دینا عجلت کا مظاہرہ نہ کرنا اشج عبد قیس   رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فر ما یا کہ۔

"تجھ میں دو خصلتیں اللہ اور اس کے رسول کو محبوب ہیں : تحمل اور آہستگی سے کسی کام کو انجا م دینا" 

یہ بھی ایک اچھی خصلت ہے کہ انسان عجلت کے بالمقابل تدبر سے کو ئی کا م  کرے ۔اسی لیے قرآن میں ارشاد ہے۔

"انسان (عجلت کی بدولت ) خیر کی دعا کرنے کی طرح شر کو دعوت دے دیتا ہے۔در حقیقت  انسان جلد باز ہے"

اہل علم کے مطا بق اس آیت میں جلد باز انسان کی مذمت کی گئی ہے ۔ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں کبھی بھی بازی کا مظاہرہ نہ کیا ۔

تیسری چیز ہے تحمل ! متغیر حالات اور فتن ابیہ کے طریق سے لیث بن سعد  رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ مستورد قرشی کے پاس عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیٹھے ہو ئے تھے۔تو مستورد کہنے لگا :میں نے نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کو سنا آپ کہتے تھے قیامت کے وقوع کے وقت اکثرلو گ روی ہوں گے۔ عمرو بن العاص  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے کہا : اپنی بات پر نظر ثانی کریں ۔مستورد نے جواب دیا: مجھے کیا پڑی ہے کہ میں وہ بات نہ کہوں جو نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے کہی ہو؟ عمرو کہتے ہیں "اگر یہی بات ہے تو رومیوں میں چار عادتیں خاص طور پرپا ئی جا تی ہیں ۔پہلی یہ کہ فتنہ پیش آنے کے وقت سب سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کرتے ہیں دوسری یہ کہ مصیبت کے وقت کے بعد سب سے پہلے وہ اس پر قابو پا کر اس کا تدارک کرتے ہیں ۔پھر مزید خصلتیں بتا ئیں بلکہ پانچویں کا بھی ذکر کیا ۔

واضح ہے کہ اس بات سے عمرو بن عاص روم  کے عیسائیوں اور کفار کی مدح سرا ئی نہیں کرنا چا ہتے تھے بلکہ وہ تو اس سے ثا بت کرنا چا ہتے تھے کہ ان کی بقاء اور آخر زمانے تک کثرت میں ہو نے کی وجہ یہ ہو گی۔ کہ وہ فتنوں پر بڑے تحمل سے غور و فکر کر کے ان کا فوری تدارک اور علاج کرتے ہیں چنانچہ  قیامت کے واقع ہو نے پر سب سے زیادہ تعداد میں ہوں گے۔صحیح مسلم کی شرح میں سنو سی اور اُبی کے کلا م کا خلا صہ یہی ہے ۔

اس بات  سے کہ قیامت سب سے زیادہ رومی لوگوں پر قائم ہو گی۔ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا مقصود ایک تنبیہ ہے کہ اس وقت روم کے لوگ سب سے زیادہ ہو ں گے۔ کیوں ؟اس لیے کہ عمروبن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کہتے ہیں کہ ان میں چا ر خصلتیں ہو ں گی اور پہلی وہ ہے جو سب سے اہم ہے اور جسے ہم نے بھی ذکر کیا ہے کہ جب فتنے نظر آنے لگیں تو تحمل سے کام لیتے ہیں غصہ نہیں کھا تے نہ ہی جلدی کرتے ہیں بلکہ اس کے تدارک پر غور کرتے ہیں اس درست رویہ کی وجہ سے تا قیامت تک ان کی کثرت رہے گی چنانچہ ہمیں اس عادت کو اپنانا چا ہیے جس کی وجہ سے حضرت عمرو نے اہل روم کی تعریف کی توجہ فرمائیں مسلمان دوسروں کے بجا ئے سب سے زیادہ خیر کے حقدار ہیں۔تحمل و بردباری ہر معاملہ میں پسندیدہ ہے آدمی کی ذہانت اور سمجھ داری کی دلیل ہے اور معاملے کو بہتر طریقے سے کنٹروں کرنے میں انسان کا مدد گا ر ہے۔

مذکورہ قاعدہ میں بعض امور کا تعلق ضوابط سے ہے اور بعض قاعدے ہیں ۔میں نے سب کو اکٹھے اس لیے بیان کیا کہ ان کا استعمال ایک دوسرے سے مشروط اور یکجا ہے۔

دوسرا قاعدہ :۔

کسی فتنے کے ظہور اور حالات کی تبدیلی پر کو ئی فوری فیصلہ نہ سنا دیا جا ئے بلکہ اس کو اپنی مکمل ہیئت قائم کرنے کی مہلت دی جا ئے پھر اس پر اتنا تبصرہ اور جا ئزہ پیش کیا جائے۔یہ قاعدہ اس اصول سے ماخوذہے کہ۔۔۔"کسی شےپر حکم لگا نا اس کی اصل ہیئت سے بعد کی چیز ہے"

باشعور حضرات نے اس قاعدہ کا اسلام سے پہلے اور بعد میں بھی بڑی کثرت سے استعمال کیا ہے کتاب اللہ میں اس کی شرعی دلیل یہ آیت ہے کہ" اور تو اس چیز کا فیصلہ نہ دے جس کا تجھے علم نہیں " مطلب یہ ہے کہ ایسا امر جس کو آپ جا نتے نہیں  اور اس سے اچھی طرح واقف نہیں اس کے پس منظر و پیش منظر سے آگا ہ نہیں تو اس میں فیصلہ دینے سے آپ کو بچنا چا ہیے ممکن ہے ۔

کہ آپ کا فیصلہ لوگوں کے روپے پر اثر انداز ہو یا آپ خود اس فیصلے میں کسی اور عنصر سے متا ثر ہوں اور صحیح فیصلہ دینے کی پو زیشن میں نہ ہوں ۔

اس قاعدے کو ہم اپنی عمومی زندگی میں جا بجا استعمال کرتے ہیں مختلف حالات میں اس فیصلے کو اپناتے ہیں ۔عقلی طور پر بھی اس کو اپنانا ضروری معلوم ہو تا ہے ۔چنانچہ شریعت نے بھی اس کا لحاظ رکھا ہے اور اس کی ممکنہ وضاحت کی ہے۔

اس کی چند مثالیں بیان کیا جا تی ہیں تا کہ قاعدہ مزید نکھر جا ئے ۔

مثا ل کے طور پر کو ئی آپ سے سوال کرتا ہے کہ "بیع مرابحہ " میں اسلام کا حکم کیا ہے ؟"تو مخاطب جو اب دیتا ہے کہ نفع تو اصل مقصود ہے اور شریعت نے نفع لینے پر کو ئی پابندی عائد نہیں کی چنانچہ مرابحہ کی بیع میں کو ئی مضائقہ نہیں لیکن اس شخص کا یہ جواب صرف غلطی پر مبنی ہے کیونکہ  اس نے کہنے والے کی مراد کو نہیں سمجھا اور مرابحہ کا معنی" خریدو فروخت میں منا فع " سمجھ لیا۔اس غلط تصور کی وجہ سے حکم شرعی کے بتانے میں غلطی کھا ئی جبکہ کسی حکم شرعی کے بارے میں ہر ممکنہ کو شش کرنا ضروری ہے تا کہ وہ صحیح بنیا د اور تصور پر قائم ہو چنانچہ مرا بحہ بیع کی ایسی قسم ہے جو غیر اسلامی ہے بینکوں کے مو جودہ سود کاری نظام میں بطور حیلہ کے استعمال ہو تی ہے اور اس کی اجازت نہیں۔

اس قاعدے کی دوسری مثا ل یہ ہے کہ کو ئی شخص آپ سے پوچھے کہ "شہود یہوہ"نامی جماعت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے تو اس جماعت کو جاننے والا تو یوں جواب دے گا کہ یہ جماعت اس  اس  طرح کے عقائد رکھتی ہے اور اس  میں فلا ں تحریک پا ئی جا تی ہے اس کے بارے میں اسلام کا فیصلہ  یہ اور یہ ہے ۔

جب کہ کو ئی آدمی یہ بھی کہہ سکتا ہے میں اس نام کی کسی جماعت کو نہیں جا نتا ۔میں نے اس سے پہلے اس کا نام بھی نہیں سنا ۔چنانچہ ایسا شخص اس جماعت کے بارے میں فیصلہ سنانے کا حقدار نہیں اس کے بارے میں شرعی را ئے بتا نے کا بھی ذمہ دار نہیں کیونکہ وہ خود اس کی حقیقت سے آگا ہ نہیں 

اس وضا حت سے ثابت ہو تا ہے کہ حاکم مفتی یا شرعی امور کے بارے میں رائے زنی کرنے والے شخص پر اس کی اپنی جا ن کا اور مسلمانوں کی جان کا یہ حق ہے اور اپنے آپ کو گناہ  سے بچا نے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ کسی چیز کے بارے میں اس کا علم مکمل ہو نے تک اپنا فیصلہ نہ سنائے مگر جب درج ذیل دو امور یقینی ہو جا ئیں تب اس میں ہچکچاہٹ نہیں ہو نی چاہیے ۔

1۔امر اول :اس پر پیش آمدہ مسئلہ پوری طور واضح ہو جا ئے اس طرح کہ دوسرے امکا ن کی گنجائش باقی نہ رہے اور اس کے فہم و عقل اور تصور میں اس کے مقابل کو ئی خیال جاگزیں نہ ہو۔ کیونکہ بسااوقات بعض مسائل مشترک نوعیت اور حکم کے ہو تے ہیں اور ان کی ہیئت ایک مسئلہ سے دوسرے مسئلہ کی طرف بآسانی منتقل ہو سکتی ہے اور فیصلہ دینے والے کے لیے غلطی میں واقع ہونے کا امکا ن قوی ہو تا ہے اس وقت خطا کا امکا ن زیادہ ہے ایسی حالت میں فیصلہ سے اجتناب ہو نا چا ہیے اور اپنے سے افضل کی طرف رجوع کرنا چا ہیے ۔

2۔امر ثانی :اس وقت حکم سنا یا جا ئے جبکہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم بعینہ اس مسئلہ میں اس کے لیے واضح ہو جا ئے نہ کہ اس سے ملتے جلتے مسئلہ میں ۔یہاں ایک اہم سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ یہ تصور کیسے واضح ہو گا ؟اور یقین کیسے حاصل ہو گا ؟کیونکہ بعض اوقات مسائل ملتے جلتے ہو تے ہیں اور ایسے عوامل نہیں پائے جا تے جن کے ذریعے اس کی اصل ہیئت پہچا نی جا سکے اور ان کی صحیح تصویر سے آگا ہ ہو جا ئے۔

۔۔۔پہلا تو وہ شخص ہے جس سے اس مسئلے میں شرعی را ئے طلب کی جا رہی ہے کیونکہ اسے خود مسئلہ در پیش ہو تا ہے جب وہ اس کے بارے میں معلومات اکٹھی کرتا ہے اور اس کے اطراف و جوانب کا جا ئزہ لیتا ہے تو اس کے لیے تصور واضح ہو جا تا ہے ۔چنانچہ وہ اپنے فتویٰ کے مطا بق اس مسئلے کو بڑی وضا حت سے بیان کرتا ہے۔

۔۔۔مسلمان عادل اور ثقہ لوگوں کے اس تصور کو آگے نقل کرنے سے جن کے نقل کرنے میں اس امر کی گنجائش نہ ہو کہ وہ اس میں غلطی کریں گے۔ چنانچہ ہر دم بدلتے حالات اورفتنوں کے زمانے میں کسی کا فر آدمی کی بات پر اعتماد کرنا جا ئز نہ ہو گا ۔باوجود اس کے کہ وہ اپنا یہ تصور یا جا ئزہ کسی ریڈیوں یا  مجلے یا کسی رپورٹ میں بیان کرے یا اپنے سامنے ہو نے والے واقعہ سے بیان کرے شرعی طور پر اس کا فر کی بات قبول کرنا ممنوع ہے کیونکہ شرعی حکم کسی مسلمان عادل اور ثقہ راوی کے بیان پر مبنی ہو سکتا ہے اس کے برعکس نہیں ۔جس طرح کہ احا دیث نبویہ میں اس احتیاط کو بڑی شدت سے ملحوظ رکھا جا تا ہے۔

الغرض : دوسرے قاعدے یعنی "کسی شے پر حکم اس کے اصل تصور پر مبنی ہو تا ہے "میں اصل چیز تصور ہے ۔اس تصور کی صحت کی بنیا دی یہی ہے کہ کسی معتبر مسلمان سے اس کو سنا جا ئے یا پھر جس نے فتوی پو چھا ہے وہ اس تصورکو پیش کر ے اگر چہ وہ فاسق  ہی کیوں نہ ہو ۔

 تیسرا قاعدہ :۔

ہر معاملے میں انصاف اور عدل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے دیا جا ئے قرآن مجید میں ہے "جب بھی تم کہوتو عدل کے ساتھ فیصلہ کر وچا ہے اس سے تمھارا قریبی ہی متاثر ہو"

اللہ جل شانہ فرماتے ہیں : کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پرآمادنہ کردے ۔کہ تم عدل سے کا م نہ لو۔ بلکہ عدل سے ہی فیصلہ کرو کیونکہ یہی تقویٰ کے قریب ترہے ۔

اس مسئلہ کی وضا حت احا دیث نبویہ میں کا فی موجود ہے یعنی اپنی بات میں بھی عدل سے کا م لو اور کسی کے بارے میں فیصلہ دینےمیں بھی عدل کرو کیونکہ جو شخص اپنی بات اور فیصلہ میں عدل نہیں کرتا گو یا اس نے شریعت کی اتباع نہیں کی جس سے اس کی نجات یقینی ہو سکے ۔ 

اس قاعدے میں عدل اور انصاف سے کیا مراد ہے ؟

مطلب یہ ہے کہ آپ کے پسندیدہ معاملوں  میں اگر آپ کو فیصلہ درکا ر ہے ایک معاملہ آپ کی ذاتی پسند ہو اور دوسرے کو آپ ناپسند کرتے ہوں تو اس وقت آپ کا رویہ دونوں کے لیے یکساں ہو نا چا ہیے اس کے بعد حکم لگا نا چا ہیے ۔کیونکہ یقینی سی بات ہے کہ انسان دونوں جا نب کو بیک وقت ایک نظر سے دیکھنے کے بعد ہی اس قابل ہو سکتا ہے کہ شریعت کے خلا ف کو ئی بات یا دین کے مزاج سے مخا لف کو ئی معاملہ دین کے ان لگا نے سے بچ سکے۔

چنانچہ اس فیصلے میں روشن اور تاریک پہلوؤں کا جا ئزہ بھی ضروری ہے اور بعد میں اس کے بغور جا ئزہ لینے کے نتیجے میں اللہ سے توقع کی جا سکتی ہے کہ آپ کو را حق سے فائزہ فرما دے ۔

یہ مسئلہ کا فی اہمیت رکھتا ہے اور اس قاعدے کی رعایت رکھنا لا زمی ہے کیونکہ جو شخص عدل وانصاف  کی طرف متوجہ نہیں ہو تا تو اس کی خواہشات اور پسند و ناپسند اس کے فیصلے پر اثر انداز ہو سکتی ہیں اور اگر وہ خدا نخواستہ غلط فیصلے یا حکم میں مددگار ثابت ہو تا ہے تو نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ فرما ن اس پرو عید ہے۔

"جو شخص بری روایت جا ری کرتا ہے تو اس پر اس روایت کا وبال ہے اور ان لوگوں کا بھی وبال ہے جو بعد میں اس روایت پر عمل پیرا ہو ئے ۔بہت بڑی مصیبت کا سامنا اس وقت کرنا پڑتا ہے جب ایسا (مبنی برھویٰ)فعل یا فیصلہ ایسے شخص سے صادر ہو جو صاحب علم رشد و ہدا یت سمجھا جا تا ہے ہو کیونکہ جا ہل اور کم علم رکھنے والے عوام بھی اس فیصلہ کرنے والے کی اہمیت کے پیش نظر اس کے غلط فیصلے پر عمل پیرا ہو تے ہیں ۔

غرض کسی بھی معاملے میں ہمیں فیصلہ کرنے سے قبل ذاتی را ئے خواہش و رویہ کو بے دخل کر کے دونوں جا نب کے نکا ت ذہن میں رکھ کر فیصلہ کرنا چا ہیے ۔

چوتھا قاعدہ :۔

جس پر اللہ کا یہ فر ما ن دلا لت کرتا ہے:

"وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّـهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا"

اس آیت کی وضا حت میں نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کہتے ہیں :

عَلَيْكُمْ بِالْجَمَاعَةِ وَإِيَّاكُمْ وَالْفُرْقَةَ"

"جماعت سے منسلک رہو اور فرقہ بندی سے باز رہو"

 ایک اور حدیث جسے عبد اللہ بن احمد نے "زوائد مسندابیہ" میں روایت کیا ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :

"اجتما عیت رحمت ہے اور فرقہ بندی عذاب ہے"

اس سے فرقہ  بندی کی تمام اقسا م مراد ہیں یعنی آراء میں اور اقوال میں ایک دوسرے سے مخالفت رکھنا یا اعمال میں اختلا ف کرنا اس کی سب صورتیں  ہی عذاب الٰہی ہیں جو امر الٰہی سے رو گردانی کا نتیجہ ہیں ۔

چنانچہ جو شخص جماعت اہل السنت والجماعت سے منسلک رہے ان کے آئمہ اور علماء کا تا بع فر ما ں رہے تو گو یا اس نےجماعت کو پکڑ ے رکھا ۔اس کے بالمقابل جو شخص کسی دوسرے فرقہ کی طرف جا تا ہے تو گو یا دنیا کی زندگی میں اللہ تعا لیٰ کی طرف سے اس پر عذاب مسلط کیا جا چکا ہے اور آخرت میں اس کا بڑا انجام ہے۔

جماعت اپنی تمام صفات اور حالات میں جب تک ہدایت حق پر گا مزن رہے تو اللہ کی رحمت کا اس پر نزول ہو تا رہے گا ۔جبکہ تفرقہ بندی عذاب ہے اور اس میں کسی طور پر خیر کی گنجا ئش نہیں ۔

لہٰذا اللہ تعا لیٰ نے اس آیت  " وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّـهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوااس "کے بعد والی آیت میں فر ما یا کہ "تم میں ایک جماعت ایسی ضرورہو نی چاہیے جو خیر کی طرف بلا ئے اور نیکی کا حکم دے برائی سے منع کرے ،یہی لو گ ہی ہدا یت یا فتہ ہیں " بعد میں فر ما یا :

"تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جا ؤ جنہوں نے فر قہ بندی اختیار کی دلائل و حقائق کے بعد آپس میں اختلا ف کیا ان لو گوں کے لیے درد ناک عذاب ہے"

وہ لو گ جنہوں نے اقوال و اعمال میں حقائق اور ہدایت واضح ہو نے کے بعد مختلف راہ اختیار کی تو یہ لو گ گمرا ہی سے محفوظ نہ رہ سکیں گے ۔باہمی اختلا ف سے بچ نہ سکیں گے۔ اور ہدا یت کی را ہ سے ہٹے ہوں گے ۔

لہٰذا ازبس ضروری ہے کہ جماعت اہل السنۃ والجما عتہ کی پیروی کی جا ئے ۔ان کے اقوال کو مشعل راہ بنا یاجا ئے ان کے قواعد و اصولوں سے آگے نہ بڑھا جا ئے علماء جماعت نے جن اصولوں کو منضبط  کیا ہے ان سے باہر نہ نکلا جائے کیونکہ وہ بہر حال دلائل شرعیہ اہل السنت والجماعت کے اصول دیگر بہت سے اہل علم کی بہ نسبت زیادہ جا نتے تھے کیونکہ اللہ نے انہیں رسخ علم صائب نظر اور علم میں ثا بت قدمی سے مالامال فر ما یا تھا :

غور کریں کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اس وقت کیا رویہ اختیار کیا جب وہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ حج میں مو جو د تھے۔

حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نما ز میں قصر کے بجا ئے پوری نماز پڑھا کرتے کہ منیٰ میں چار رکعات پڑھتے جبکہ مسنون یہ ہے کہ منیٰ میں دو رکعتیں پڑھی جا ئیں ہر چار رکعت  والی  نماز کے قصر کے طور پرحضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے شرعی تاویل کی بنا پر منا سب یہ سمجھا کہ انہیں وہاں چا ر رکعات پڑھنا چا ہئیں جبکہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کہا کرتے کہ ہر چار رکعت نماز کے بارے میں نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی واضح سنت یہی ہے کہ دو رکعتیں منیٰ میں پڑھی جا ئیں انہیں کہا گیا : اے عبد اللہ بن مسعود  رضی اللہ تعالیٰ عنہ !ادھر تو آپ یہ بات کہتے ہیں دوسری طرف حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے ساتھ چار رکعات بھی پڑھتے ہیں ایسا کیوں ہے ؟جواب دیا: " اے فلا ں !اختلا ف کرنا شر محض ہے اختلا ف شر محض ہے اختلا ف شر محض ہے اختلا ف شر محض ہے"ابو داؤد نے اسناد قوی سے اس کو روایت کیا ہے ثابت ہوا کہ ان فہم کی رو شنی میں جو شخص اختلا ف کا رستہ اپناتا ہے تو جہاں اپنے لیے فتنے کھڑے کرتا ہے وہاں دوسرے بھی اس فتنے کی لپیٹ میں آتے ہیں ۔

پانچواں قاعدہ:۔

فتنہ کے انتشار کے وقت اس امرکی پروا کئے بغیر کہ وہ مملکت کی را ئے ہے یا اس کی طرف بلا نے والوں کی مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ اسے شرعی میزان پر پرکھے جو اہل سنت و الجماعت کا میزان ہے جو بھی اس میزان پر پرکھ کرے گا تو اس کا فیصلہ حق پر مبنی اور قائم برا انصاف ہو گا ۔جس طرح اللہ تعا لیٰ نے اپنے میزان کے بارے میں فرما یا ہے کہ "تم قیامت کے دن انصاف کا ترازو قائم کریں گے ۔اس دن کسی جان پر ظلم نہ کیا جا ئے گا ۔"

اسی طرح اہل سنت و الجماعت کے لیے  انصاف پر قائم میزان ہیں ۔

جن پر وہ اپنے امور افکا ر اور حالات کی پرکھ کرتے ہیں یہ میزان آئمہ کی تعلیم کے مطابق دوقسموں میں منقسم ہیں ۔

1۔فتنے کے جا ئزہ لینے میں پہلا میزان یہ ہے کہ جس کے ذریعے اسلام اور کفر کا فیصلہ ہو۔یعنی دعواے اسلام کی صحت اور عدم صحت کو پر کھا جا سکے بے شمارنعرے ایسے ہیں کہ انہیں اسلام سے  منسوب کیا جا تا ہے لیکن ان کا اسلام سے تعلق اور عدم تعلق بھی محل نظر ہو تا ہے ۔چنانچہ دیکھا جا ئے کہ آیا یہ اسلامی را ئے ہے تب اس پر احکام  شرعی وارد ہوں گے۔اور اس کی رعایت لا زمی تصور ہو گی۔

2۔میزان اور ترازو کی دوسر ی قسم وہ ہے جس سے اسلام کے کمال اور عدم کمال اور اسلام پر حقیقی استقامت کے ہونے یا نہ ہو نے کو پرکھا جا تا ہے۔

میزان کی پہلی قسم میں کفر و اسلام کا فیصلہ کیا جانا مقصود ہے کہ آیا را ئے مبنی بر ایمان ہے یا نہیں ؟ اور دوسری قسم اس امر سے بحث کرتی ہے کہ یہ را ئے آیا عین ہدا یت پر مبنی ہے جس اللہ و رسول نے پسند فر ما یا ہے یا اس سے دین میں نقص لا زم آتا ہے جب یہ تقسیم واضح ہو جا ئے تو تب شرعی احکام کا اجر اء ممکن ہو گا ۔

1۔قسم اول جس کا تعلق اسلام اور کفر سے متعلق را ئے سے ہے اس کی پہچان  کے لیے مندرجہ  ذیل تین امور کا ہو نا ضروری ہے۔

پہلی بات یہ ہے کہ کیاا س میں اس کی صراحت پا ئی جا تی ہے کہ صرف اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی جا ئے یا نہیں ۔کیونکہ تمام انبیاء علیہ السلام  کے دین کا اصل نکتہ تو حید الوہیت ہے اور دین کا مبتداورمنتہیٰ یہی ہے چنانچہ جو شخص تو حید پر مبنی نعرہ بلند کرے اور اللہ وحد ہ لا شریک کی عبادت کا ثبات کرے غیر کو شریک نہ ٹھہرا ئے تو ثابت ہو گا کہ یہ نعرہ اسلامی ہے جبکہ اس میں باقی آئندہ دو شروط بھی پائی جا ئیں ۔

پہلا میزان یہ ہوا کہ ہم اس بات کا جا ئزہ لیں کہ آیا یہ را ئے تو حید اور غیرکی عبادت نہ کرنے کے مفہوم پر مبنی ہے۔دوسرے درجے میں یہ دیکھا جائے اس میں نبی کرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی نبوت کی شہادت متضاد کو ئی بات نہ پا ئی جائے اور شہادت رسالت کا تقاضا ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی لا ئی ہو ئی شریعت کی مکمل حکمرا نی ہو اللہ سبحانہ وتعا لیٰ کا ارشاد ہے کہ:

"یہ لو گ کبھی ایمان والے نہیں ہو سکتے  جب تک اپنے جھگڑوں میں آپ سے فیصلہ نہ کروائیں ۔اس کے بعد ان کے دلوں میں اس فیصلے پر کو ئی تنگی یا دشواری کا رویہ پیدا نہ ہو اور وہ اس را ئے کو کھلے دل سے تسلیم کر لیں "

چنانچہ آپ کو دیکھنا چا ہیے کہ یہ را ئے لو گوں کے بارے میں اللہ تعا لیٰ کے اس فیصلہ کو تسلیم کرتی ہے اور اس رویے پر مبنی ہے کہ جب لو گوں میں اپنے فیصلوں کے بارے میں جھگڑا ہو جا ئے ۔تو ان میں شرعی قاضی اس کا فیصلہ کرے گا ۔اگر ایسے ہو تب اس را ئے کو شرعی سمجھا جا ئے گا کیونکہ یہ شریعت الٰہی کے بلند تر اور حا کم ہو نے پر مبنی ہے۔

تیسرا میزان یہ ہے کہ دیکھا جا ئے کہ اس میں محرمات کوحلال  کیا گیا ہے یا محرمات کے ارتکاب پر ناپسندیدہ گی گراہت اور انکا ر کا رویہ اپنا یا گیا ہے۔

ایسا حکم جس کی حرمت پر امت متفق ہے اس کےبارے میں دو باتیں ہو سکتی ہیں ۔

یا تو اس را ئے میں اس حکم کو حلال کیا گیا ہو گا تو یہ کفر ہے اللہ ہمیں اس سے محفوظ رکھے دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ پیش آمدہ معاملہ حرا م ہے لیکن اس کا ارتکا ب مو جو د ہے۔

اور رائے کے حاملین اس چیز کا اقرار کرتے ہیں کہ یہ حرام ہے اور اس سے احتراز ضروری ہے اس وقت فیصلہ ہو سکتا ہے کہ یہ را ئے اسلامی ہے۔

قسم اول کر تحت یہ تین میزان ہیں جس کے بعد ہم را ئے کی پرکھ کرسکتے ہیں ۔قسم ثا نی ان موازین سے بحث کرتی ہے جو اسلام کے کمال اور عدم کمال سے تعلق رکھتے ہیں ۔نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام دین پر عمل کیا جس طرح وہ اللہ کے پاس سے ان تک پہنچا ۔آپ ہی وہ متقدیٰ ہیں جن کی تابعداری فرض ہے آپ سے اس دین کو خلفا ء راشدین  رضوان اللہ عنھم اجمعین  اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  نے آگے منتقل کیا اس کے بعد آج تک اسلام میں نسبتاًکمی کی طرف رجحان رہا حتیٰ کہ آج دین اس مقام تک پہنچا جس میں ہم زندگی گزارتے ہیں ۔ارشاد نبوی ہے۔

"اور کو ئی زمانہ ایسا نہیں مگر اس کے بعد شر میں اضا فہ ہو تا رہے گا حتیٰ کہ تم اپنے رب سے ملا قات کر لوگے"

اس قسم کے تحت دیکھا جا ئے گا کہ امور شرعیہ کی پاسداری کے بارے میں اس را ئے کا رویہ کیا ہے نماز کے حکم کے سلسلہ میں منکرات سے روکنے کے سلسلے میں امر بالمعروف  و نہی عن المنکر کے بارے میں اس را ئے کا رجحان کیا ہے ان امور کے سلسلے میں فرا ئض سے اور(الفاظ مٹے ہو ئے ہیں ) ہیں اس را ئے کا طرز عمل کیا ہے اگر را ئے ان امور پر مثبت طور سے پو ری اترے تو یہ را ئے مبنی بر کمال ہے بصورت دیگر اس کے بر عکس !مذکورہ بالا میزان بہت اہم ہیں اور ہر وقت دل و دماغ میں حا ضر رہنے چا ہئیں تاکہ  کسی گمراہ  کن نظریے کی تشہیر کے وقت اور کسی حق (لفظ مٹا ہوا ہے) کے مخلوط نظریے سے واسطہ پیش آنے پر آپ سراہی ۔

جب ان سب امور کا جائزہ واضح در یقینی ہو جا ئے اور رائے کے اسلامی یا غیر اسلامی ہو نے کا فیصلہ ہو جا ئے تو دینی لحا ظ سے یہ بات آپ پر واجب ہے کہ آپ اسلامی را ئے کو نشر کریں اور اس سے محبت کریں کیونکہ دین ہمیں مسلمانوں سے محبت اور دوستی کا حکم دیتا ہے ۔

Comments

Popular posts from this blog

فتنوں کے دور اور مسلمان کا کردار